تحریر:فرحت شاھین
عنوان:خواتین کی ہراسمنٹ، ذمہ دار سوسائیٹی؟
’ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں رہنے والی کوئی خاتون یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کو کبھی عوامی مقامات پر ہراسانی یا خوف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔۔۔ یہ خوف ہر قدم پر ہمارے سر پر منڈلاتا ہے، وہ بازار ہو، دوکان ہو، راستہ ہو، دفتر ہو یا پھر کوئی پارک۔‘’ہمارے معاشرے میں خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر ہراساں کیا جانا ایک معمول ہے۔ کبھی کوئی لفظ، کبھی صرف نظر اور کبھی کسی دوسرے کی کوئی بیہودہ حرکت ہمارے معاشرے کی عورت کا مقدر ہے۔خواتین کو ہراساں کیوں کیا جاتا ہے کیا انکا لباس یا حلیہ وجہ بنتا ہے، اکثر ہراساں کی جانے والی خواتین کو بہت سے مشوروں سے نوازا جاتا ہے کہ آپ اس راستے سے جاتی ہی کیوں ہیں؟ گھر آنے جانے کے لیے کوئی رکشہ لگوا لیں‘ گھر سے چادر لے کر نکلا کریں یا برقع پہنیں، اس کے باوجود اگر کوئی اوباش آپ کا پیچھا کرتے گھر تک پہنچ جائے تو پھر بھی قصور لڑکی کا ہی نکلتا ہے کہ یہ گھر سے باہر کرنے کیا گئی تھی۔۔ عوامی مقامات پر کسی نہ کسی لڑکی کے ساتھ ہراسانی کا واقعہ رونما ہوتا رہتا ہےپاکستان کی بیشتر خواتین ایسی ہیں جو عوامی مقامات پر اس قسم کی ہراسانی کا سامنا کر چکی ہیں۔ اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے عوامی مقامات خواتین کے لیے جائے ممنوعہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بے حیائی کپڑوں سے پھیلتی ہے تو ایک سال کی بچی کا ریپ کیوں ہوتا ہے۔ اگر موڈرنزم اس کی وجہ ہے تو ایک معمولی گھریلو ملازم کا ریپ کیوں ہوتا ہے؟؟ اگر برقعہ پہننے سے عزت محفوظ رہتی ہے تو اسی عزت کو تار تار کرنے والے ہاتھ کونسے ہوتے ہیں؟ اگر اپر کلاس وڈیرے ہی اس قسم کی حرکات کرتے ہیں تو سڑکوں ، بسوں، چوک چوراہوں پر کون کھڑا ہوتا ہے؟؟کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ سب کسی ایک کلاس کا ایک طبقے کا نہیں بلکہ اجتماعی مسئلہ ہے ہر اس عورت کا مسئلہ ہے جو یہ سب برداشت کر رہی ہے اور اس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔یہ فرق ضرور ہے کہ عورتوں کو ہراساں کرنے کے طریقے مختلف ہیں۔ بازار میں چلے جائیں تو آتے جاتے کئی مرد آپ کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں، سڑک پر ہم چل نہیں سکتے دو قدم چلیں تو آوازیں کسنا شروع کر دیتے ہیں۔ عورتیں جائیں کہاں۔ کسی مجبوری کے تحت عورت گھر سے اکیلی باہر نہیں جا سکتی کیونکہ کسی مقام پر وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتی میرے خیال میں عورت جس بھی عوامی مقام پر ہو، وہ محفوظ ہو۔ ہر جگہ آرام سے جا سکیں، جو ہمارا بنیادی حق ہے
اگست میں مینارِ پاکستان پر 400 سے زائد افراد کے ہجوم نے ایک خاتون کے ساتھ دست درازی کی تھی۔اب ایک خاتون کیا کسی جنگل میں تھی کہ اسکے ساتھ اسطرح کا سلوک کیا جاتا ،،سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جنوری سے ستمبر تک پنجاب بھر میں کل 20 ہزار 500 سے زائد ایسے جرائم رپورٹ ہوئے جن میں خواتین جنسی یا جسمانی طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ یہ ملک عورتوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک ہے۔ شاید ہم اس بات کو قبول بھی کر چکے ہیں اور اس صورتحال کو بدلنے کا ہمارا کوئی ارادہ بھی نہیں۔ خواتین کے لیے بس سروس شروع کرنا، رکشہ سروس یا ٹیکسی سروس شروع کرنا بیشک ایک اچھا اقدام ہے لیکن ہمیں معاشرے کی سوچ کو بدلنے کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ساتھ ہی یہ بھی سوچنا چاہیے کہ خواتین کب تک گھر سے تنہا نکلنے میں ڈر و خوف محسوس کریں گی اور کب تک خواتین کوباہر نکلنے کے لیے ایک ننھے سے محافظ کی ضرورت پڑتی رہے گی۔