ع لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھر زد میں۔

0

 

 

تحریر  زرق زیب

ع لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھر زد میں۔

مجھے آج بیٹھے بٹھائے بھارتی شاعر راحت اندوری کا شعر یاد آگیا
لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھر زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ خشک نباتات آگ پھیلنے کا موجب بنتی ہے اور تیز ہوائیں جلتی پہ تیل کا کام کرتی ہیں۔ لاس اینجیلس میں بھڑکتی ہوئی آگ نے امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس آگ کی پہلی چنگاری عراق سے اٹھی تھی۔ پھر افغانستان، لیبیا سے ہوتی ہوئی فلسطین اور بالآخر لاس اینجیلس جا پہنچی۔ بقول شاعر

زلزلے یوں ہی زمینوں پہ نہیں آتے ہیں
کوئی بے تاب تہ خاک تڑپا ہوگا

حضرت انسان بڑا متکبر واقع ہوا ہے۔ وہ اپنے آپ پر اِتراتا ہے۔ خود کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس حد تک کہ سپر پاور ماننے پر یقین رکھتا ہے۔ مگر اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اور حضرت انسان اس کا نائب ہے۔ لیکن آج کا حضرت انسان نے شیطان سے یارانے قائم کیے ہوئے ہیں۔ اور شیطانی صفت تکبر، غرور اور خود کو برتر ماننا اور اسے ثابت کرنے کی کوشش بھی کرنے لگا ہے۔ موت کو بھول کر زندگی کی رونقوں سے گلے لگائے ہوئے ہیں۔ اپنے سے کم تر لوگوں کو رسوا اور ذلیل کرنے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے لاس اینجیلس پیسے کی چنگاری میں جھلس رہا ہے ۔ امریکی حکام کئی دنوں سے آگ ٹھنڈی کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ پوری دنیا میں گزشتہ کئی دہائیوں سے لگنے والی آگ کچھ دن قبل ہی امریکہ پہنچی ہے۔ اب یہ لمحوں میں بجھائی نہیں جائے گی۔ مظلوم کی آہ سے بچنا چاہیے۔ مظلوم کی بددعا بڑی جلدی قبول ہوتی ہے ۔

بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور ۔

سات جنوری سے لگنے والی آگ پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ 40 ہزار کا رقبہ جل کر راکھ ہو گیا ہے۔ 12 ہزار عمارتیں تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ آتشزدگی کی وجہ سے 275 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ آتشزدگی میں جل کر مرنے والوں کی تعداد 25 سے زیادہ ہے۔
30 افراد کے لاپتہ ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ لاس اینجیلس میں لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اسی بنا پر امریکی حکومت کو کرفیو لگانا پڑا ہے۔ فائر اینجنز ، واٹر ٹینکرز اور ہیلی کاپٹرز کی مدد سے آگ بجھانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکی حکام نے آگ بجھانے کے لیے جیل کے قیدیوں کی مدد لینا بھی شروع کر دی ہے۔
ترقی یافتہ ملک امریکہ میں آگ بجھانے کے لیے گلابی رنگ کا کیمیکل استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ تمام تدبیریں دم توڑ چکی ہیں۔

ع الٹی ہو گئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

اس بات سے سب سب بخوبی آگاہ ہیں کہ فلسطین کی تباہی میں امریکہ کی پشت پناہی شامل ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں کی نسل کشی میں امریکہ کا آشیرباد ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب بھی انسانیت کے خلاف نہیں ہے۔ ہر مذہب نے انسانیت کی خدمت کی تلقین کی ہے۔ اور مشکل وقت میں انسانیت کے فلاح و بہبود کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کو کہا ہے
اللہ تعالیٰ کی ذات قرآن پاک میں ارشاد فرماتی ہے:

"عین ممکن ہے جس قوم کا تم مذاق اڑاتے ہو وہ تم سے بہتر ہو”

امریکی حکومت اور امریکی عوام کے باشعور لوگ بھی قہقہے اڑاتے نظر آئے جن میں سرفہرست امریکی اداکار جیمز وڈ شامل ہیں۔ جو فلسطین میں ہونے والے ظلم و ستم پر خوش دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن جب قدرت نے ان کو آگ کی لپیٹ میں لیا تو وہ زار و قطار روتے نظر ائے۔
بائبل بھی انسانیت کی خدمت پر زور دیتی ہے ۔ رومیوں میں درج ہے:

"خوش ہونے والوں کے ساتھ خوشی مناؤ اور رونے والوں کے ساتھ روؤ۔”

بالکل اسی طرح یہودی تعلیمات تلمود بھی اسی بات پر عمل پیرا ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کی جائے۔
مگر امریکہ طاقت کے نشے میں دھت، غرور اور تکبر میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ اسے فلسطینی بچوں، بوڑھوں کی آہ و پکار سنائی نہیں دی۔
خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ کبھی بھی کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ معزز قارئین! کچھ من چلے اینجلینا جولی کی مثال دیتے ہیں۔ جب پاکستان میں سیلاب آیا تھا تو ہالی وڈ اداکارہ اینجلینا جولی پاکستان آئی تھی۔ اور انہوں نے سیلاب زدگان کی بہت مدد بھی کی تھی۔ ہالی وڈ اداکارہ اینجلینا جولی کا گھر بھی ہونے والی اس آتشزدگی سے متاثر ہوا ہے۔ لیکن ان من چلے دوستوں کو امریکہ سے نہیں بلکہ اینجلینا جولی سے ہمدردی ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے دیگر معاملات کو پس پشت رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی حکومت نے پینٹاگون میں موجود اسلحہ کے ذخیرے hwad کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی مگر لاس اینجیلس میں ماحولیاتی آلودگی پر قابو نہیں پایا۔
لاس اینجیلس کی آگ کب بجھے گی فقط مفروضے ہی قائم کیے جا رہے ہیں۔ مگر ایک بات تو طے ہے کہ جب قدرتی آفات آتی ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ اور جب انسانی سانحات آتے ہیں تو پرامن طریقے سے اس کا حل کرنا چاہیے۔ تاکہ قتل و غارت کا بازار گرم نہ ہو۔
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجنا وی مر جانا
ڈِیگر تے دن ہویا محمد اوڑک نوں ڈُب جانا

Leave A Reply

Your email address will not be published.