تحریر۔فرحت شاھین جی این این۔
خوابوں کی آمجگاہ ،،،میرا گاوں میں جنت ،،،
سالوں بعد شہیراحمد اپنی نئی گاڑی میں گاوں کی جانب رواں دواں تھا کہ ایک جھٹکے سے گاڑی روکی اور ٹائر پنکچر ہو گیا ٹائر کو دوبارہ سے قابل استعمال کیا تو گاڑی ایسے چلنےلگی جیسے کہ بچپن میں گدھا گاڑی میں بیٹھ کر کھتیوں کی سیر کا جایا کرتے تھے جب گاڑی سے اتر کر دیکھا تو سڑک میں جگہ جگہ گڑھے اور ٹوٹ پھوٹ نے گاڑی کا چلنا محال کر رکھا تھا جس کے باعث 20 منٹ کا سفر ایک گھنٹا کا ہو چکا تھا لیکن مرتے کیا نا کرتے کے مصداق اس کا یہ اذیت اٹھانی ہی تھی کیوںکہ اسکو گاوں میں موجود اپنی دادی سے ملنا تھا جو اتنے سالوں سے اس سے ملاقات کی منتظرتھیں ،،،اپنی مٹی کی خوشبو اسکو سات سمندر پار سے اپنے وطن تو لے آئی لیکن اپنے آبائی گاوں جانا اسکے لئے جوئے شیر لانے کے متراف بنا ہوا تھا اسی طرح کا کچھ حال ڈومیلی کے گاوں حیال مغلاں کا بھی ہے متعدد سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ،،جگہ جگہ گڑھے ہونے کے باعث لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں اور اس کے نتیجے میں گاڑیاں بھی خستہ حالی کا شکارہیں کوئی پرسان حال نہیں ہے، علاقہ مکینوں کا شکوہ ہے کہ اول تو سڑکیں بنتی نہیں اور بنتی ہیں تو اتنے خراب مٹیریل سے کہ ایک دو ماہ بعد ہی پھر ویسی ہی ناہموار اور گڑھے دار ہو جاتی ہیں، خراب سڑکوں کے باعث عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں وہ اذیت بھی ہے جو سفر کے دوران پیش آتی ہے۔ اس سڑک سے جو بھی کار والا ایک دفعہ گزر جائے دوبارہ آنے کی ہمت نہیں کرتا۔ ٹیکسی والے بھی اس طرف جانے سے منع کردیتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمارے گاڑی کے ٹائر اور ٹائی راڈ ٹوٹ جاتا ہے۔ سڑک ٹوٹنے کی وجہ سے جو جگہ جگہ گڑھے پڑ تے ہیں اس کی وجہ سے رکشہ میں بیٹھنے والے جھٹکوں کی وجہ سے کمردرد کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ہم متعلقہ ادارے سے ملتمس ہیں کہ اس سڑک کی حالت مزید خراب ہونے سے بچا لیں تاکہ سفر کرنے والوں کو تکلیف دہ سفر سے نجات مل سکے