خاموشی توڑنی پڑ جاتی ہے مجبوراً………….تحریر احسن وحید

0

 

 

خاموشی توڑنی پڑ جاتی ہے مجبوراً

تحریر احسن وحید

مجھ سے اکثر دوست احباب اور محبت کرنے والے سوال کرتے ہیں کہ منظر عام سے غائب ہو گئے ہو، نظر نہیں آتے، کیا وجہ !! کہیں صحافت تو نہیں چھوڑ دی ۔۔۔
تو میں 99% احباب کو ان سوالات کا جواب دینے کی بجائے ہنس کر ٹال دیتا ہوں ۔۔ پاکستان میں رہنے والے جانتے ہیں کہ یہاں اصل مسئلہ ہی غمِ روزگار ہے ۔۔۔

بات تھوڑی کھل کر کروں !!! اگر آپ پڑھنے والے برا نہ منائیں تو

جنکے پاس تو پالش مالش کا ہنر ہے، جو نائیوں کے کرنے والے کام بطریق احسن کر لیتے ہیں، جنکو عزت نفس کی پرواہ نہیں یا جنکی عزت نفس ہے ہی نہیں انہیں غمِ روزگار سے کیا لینا دینا وہ تو فوتگی پہ بھی جا کر نائیوں والا کام کر کے پیسے اینٹھ لیتے ہیں، ایک وقت کی روٹی پہ ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ دیتے ہیں، برگر، پیزا، چپس کی پلیٹ اور چائے کے کپ پہ مر مٹتے ہیں اور تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں اور تو اور انسان چھوڑ کر جانوروں والے ایکٹ کرتے ہیں، حالانکہ ہیں اشرف المخلوقات !!
کھیل ہو یا افتتاح، سیاست ہو یا ثقافت ہو، کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو، کسی کے بچے کا عقیقہ ہو، کسی کی شادی ہو، کسی کا ختم قل یا چہلم ہو، بیشک جنازہ ہی کیوں نہ ہو، اب ان جدید نائیوں کو بلا لیا جاتا ہے (نائی کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ جو سابقہ ادوار میں دیہی علاقوں میں وہ کرتے تھے اب انکی جگہ یہ جدید نائی آ گئے ہیں) تو ایسے لوگوں کی موجودہ دور میں کامیابی ہی کامیابی ہے ۔۔ کیونکہ کامیابی نام ہی پیسے کا رہ گیا ہے ۔۔ پانچ سو اور ہزار روپے پہ نائیوں والے کام کرنے والا کامیاب ہی کامیاب تصور کیا جاتا ہے ۔۔۔

تو بھائی !! ہم سے یہ کام نہیں ہو سکتے ۔۔ نہ میرا روٹیاں توڑنے والا کوئی سین ہے اور نہ میں مالش پالش کا ماہر ہوں ۔۔

اس ضمن میں زندگی کے دو سچے واقعات بتاتا چلوں ۔۔
چند سال پہلے سوہاوہ کے ایک معروف دربار کے کسی چیلے کا مجھے فون آیا کہ کوریج کرانی ہے، میں نے کہا کس چیز کی ؟ کہنے لگے "دانداں ناں تماشہ اے” کتنے پیسے کِنسو ۔۔۔🤭😀
میں نے یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا کہ بھائی کوئی اور گھر دیکھو ۔۔ میں یہ کام نہیں کرتا ۔۔۔
تین چار سال پہلے کا ہی ایک دوسرا واقعہ ہے کہ سوہاوہ میں ایک کرکٹ میچ کی تقریب تقسیم انعامات میں موجود تھا وہاں ایک صاحب کوریج کرنے والوں کو ہزار ہزار روپے کے اعلانات کروا رہے تھے، مجھے بھی مخاطب کیا گیا اور باقاعدہ اشارے سے بلایا گیا کہ انعام وصول کریں تو میں نے ان سے دور سے ہی معذرت کر لی تھی ۔۔ تقریب کے بعد وہ صاحب مجھے ملے جو بیرون ملک سے آئے ہوئے تھے تو کہنے لگے کہ ہم آپکو دیکھتے رہتے ہیں اس لیے بلایا تھا تو میں نے ان سے کہا کہ میرا یہ سٹیٹس نہیں کہ میں اس بھرے مجمع میں آپ سے ہزار روپے لیتا ۔۔ کیونکہ نہ میں آپکی کوریج کرنے آیا ہوں اور نہ میں اس طرح نائیوں والے کام کرتا ہوں ۔۔
بات بس اتنی سی ہے کہ مجھے عزت نفس کا سودا کرنا نہیں آتا ۔۔ نہ مجھے خریدنے والا کوئی آج تک پیدا ہوا ہے ۔۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ صحافت کا جو معیار بے لگام سوشل میڈیا نے کر دیا ہے اس کے بعد ہماری چپ ہی بنتی ہے ۔۔ صحافت خون میں شامل ہو چکی ہے اسکو چھوڑا نہیں جا سکتا لیکن اب بہت محتاط ہو گیا ہوں ۔۔
میں نے جتنا عرصہ سامنے رہ کر صحافت کی ہے وہ ٹھوک بجا کر کی ہے، اس صحافت میں دھونس دھمکیاں بھی شامل تھیں جو مجھے دی گئیں، ایک بار تھانے کی ہوا بھی کھانا ہڑی، لیگل نوٹس بھی ملے، کیس بھی چلتے رہے، تھریٹ بھی کیا جاتا رہا ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سوہاوہ سے ٹرانسفر ہونے والا سرکاری افسر اپنی سیٹ پہ آنے والے افسر کو میرے بارے میں اچھا یا برا بتا کر جاتا ہے ۔۔ تازہ مثال سوہاوہ کے ایک سینئر پولیس آفیسر کی جانب سے مبینہ طور پر تھریٹ کیا جانا شامل ہے جس کے گواہ ہمارے کچہری کے ایک دوست ہیں ۔۔ مگر میں جھکا اب بھی نہیں اور نہ کسی کے سامنے جھکوں گا ۔۔۔
صحافت ہمیں کچھ نہیں دیتی ۔ اپنی مرضی سے صحافت کی ہے اور اپنی مرضی سے کرتا رہوں گا مگر اپنی عزت نفس ہر چیز سے مقدم ہے اور مقدم رہے گی اس کے لیے صحافت کی قربانی بھی دینا پڑی تو دوں گا۔۔۔

بس اتنی سی وجہ ہے منظر عام سے غائب ہونے کی ۔۔۔۔!!!!
یہ باتیں انکے لیے ہیں جو اکثر سوال کرتے ہیں مگر میں ہنس کر ٹال دیتا ہوں ۔۔ شاید میں انکے سامنے یہ سب نہ کہہ پایا ۔۔ آج لکھ رہا ہوں ۔۔

والسلام
احسن وحید

Leave A Reply

Your email address will not be published.